"سحر ہونے والی ہے"
اقبال کا شاھین ہوں
اونچی سے اونچی اوڑان میری
ہے منزل ستاروں سے اگے
جذ بہ بلند آسمانوں سے
وہ فصلِ گل ، موسمِ بہار ہوں
جسے اند یشہِ زاوال نہیں
نہ ڈر کسی طوفان کا
نہ خوف کسی بادو باراں سے
میں نے لکھی آپ اپنی تقدیر ہے
پرائی تحریروں کا اعتبار نہیں
زاہد موت بھی نہ مار سکے
ایسا میرا وجود ہے
اے نوجوانوں ، قوم کے معماروں جب منزل دور ، راستہ کھٹن اور تاریکی ہی تاریکی ہو۔ دور دور تک کچھ سجائی نہ دیتا ہو، بے سرو سمانی کا عالم ہو تو ایسے مشکل ترین وقت میں بھی تم ہمت نہ ہارنا، مایوس نہ ہو نا، نا اُمید نہ ہونا بلکہ اپنا جذبہ بلند رکھنا ، صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دینا۔
آگے بڑھتے رہنا چاہے تم کو گھٹنوں کے بل ہی رینگھنا کیوں نہ پڑے۔
بس تم اپنا حوصلہ اپنا جذبہ بلند رکھنا؛
کہ سحر ہو ہی جائے گی
رات کتنی ہی تاریک کیوں نہ ہو، کتنی ہی خوفناک کیوں نہ ہومگر آخر اُس کی صبح ہو کے رہتی ہے
کہ صبح ہو کے رہتی ہے
روشنی پھیل لے رہتی ہے
خزاہیں جتنا مر ضی ظلم کر لیں، چمن میں جتنی بھی ویرانی پھلا دیں، بلبل کو جتنا دکھ دے لے مگر
مگر بہار آ کے رہتی ہے اور چاروں طرف پھول کھل جاتے ہیں۔ خوشبوئیں پھیل جاتی ہیں۔چشمے پھوٹ نکلتے ہیں۔ بلبل جھوم اُٹھتی ہے کہ آخر بہار آہی ہے
طلبعلموں ، نوجوانوں، قوم کے معماروں بس تم اُمید رکھنا، حوصلہ رکھنا اور قدم بڑھاتے رھنا کہ
آس رکھنا، اُمید رکھنا
سحر ہونے والے ہے
صبح ہو نے والی ہے
بہار ہو نے والے ہے